Sunday 25 August 2013

مصر کی بے رحم تاریخ

کہتے ہیں کہ یورپ کے تہذیبی مرکز پیرس کو جب چھینک بھی آتی ہے تو یورپ کو زکام ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی اعزاز عرب دنیا میں قاہرہ کو بھی حاصل ہے۔ افریقہ کا یہ شہر جو ابتدائے اسلام میں ہی عرب بن گیا تھا اور زبان اور مذہب عربوں کا اختیار کر لیا، وہ آج عرب دنیا کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا، علم و ادب اور تعلیمی درسگاہوں اور صحافت کا مرکز ہے۔ چنانچہ قاہرہ کی زندگی میں جو لہر اٹھتی ہے وہ پوری عرب دنیا میں محسوس کی جاتی ہے۔ مغربی افریقہ سے لے کر مشرق وسطیٰ تک پھیلی ہوئی عرب دنیا پر گویا تہذیبی اور ثقافتی اور علمی حکمرانی مصر کی ہے۔
مصر نہ صرف اپنی قدیم و جدید تاریخ میں بے مثل ہے، یہ عربوں کی واحد سیاسی تحریک کا مرکز بھی ہے۔ اخوان المسلمون کی تحریک پوری عرب دنیا میں موجود ہے۔ کہیں اعلانیہ اور کہیں اندر خانے لیکن کوئی عرب ملک اس سے خالی نہیں ہے۔ عرب دنیا کی آمریت اور بادشاہت کے بالمقابل صرف اخوان ہی کھڑے ہیں۔ شروع دن سے ہی جیلیں کاٹ رہے ہیں، شہید ہو رہے ہیں اور سزائے موت پا رہے ہیں کیونکہ ان کے نظریات کو شکست نہیں دی جا سکتی البتہ نظریات کے حامل افراد کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
ایک لایعنی مشق اور بے سود گناہ، مصر میں یہ سب کچھ نیا نہیں ہے۔ 1954ء میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، سیاسی عوامل اور ایشوز بھی ایسے ہی تھے۔ مصر میں فوجی بغاوت کے سرغنہ جنرل نجیب اور کرنل جمال ناصر کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی۔ یہ تنازع 25 فروری 1954ء کو اس وقت سامنے آیا جب جنرل نجیب نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ سن کر راتوں رات ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ صدر کو غیرمشروط طور پر بحال کیا جائے اور پارلیمنٹ کو بھی بحال کر کے سیاسی عمل کو بالادست کیا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔
مصری عوام کے اس احتجاج میں جنرل نجیب کی بحالی سے بھی فرق نہ پڑا۔ جنرل نے عابدین محل کے جھروکے سے عوام سے اپیل کی کہ وہ گھروں کو چلے جائیں مگر وہ نہ گئے بالآخر اخوان کے لیڈر عبدالقادر عودہ سے درخواست کی گئی کہ وہ لوگوں کو واپسی کا کہیں اگرچہ اس مقبول عام رہنما کے کہنے پر لوگ گھروں کو چلے تو گئے لیکن جو لوگ احتجاج کرانے والے تھے وہ مطمئن نہ ہوئے۔ انھوں نے بالآخر ایسے حالات پیدا کر دیے کہ عبدالقادر عودہ کو موت کا سامنا کرنا پڑا۔ آج مصر ایک بار پھر مظاہروں کی زد میں ہے۔ جو لوگ ان مظاہروں کے پیچھے ہیں وہ انھیں ختم نہیں کرنے دیتے۔ اب کوئی عودہ نہیں جو جان دے کر مظاہروں کو بند کرائے اور ملک کو بچا سکے۔ 3 جولائی کو محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد مصر میں مظاہرے جاری ہیں اور پورا ملک ان کی لپیٹ میں ہے۔
بیرونی مدد سے جن قوتوں نے جمہوریت کی بساط لپیٹی ہے، وہ اب اخوان کو سبق نہیں سکھا رہیں کیونکہ کبھی اخوان معاملات میں لچک دکھاتی تھی، اب وہ ایسا نہیں کرتی۔ اب اخوان سمجھوتہ کے موڈ میں نہیں ہیں۔ فوجیوں کو پہلے والے نرم اخوانوں سے یہ توقع نہ تھی۔ مصر میں اور باہر کے سیاسی بساط کو بدلنے والے حیران ہیں کہ اخوان کیوں سخت مزاحمت کر رہی ہے، جیل میں اخوان کے ڈپٹی سپریم لیڈر خیراۃ الشاطر نے امریکی وفد سے ملنے سے انکار کر دیا۔ یہ اخوان کا مظاہروں کی اصل طاقت امریکا کو جواب ہے۔ ان بیرونی عوامل نے مل کر اخوان کو پالیسی سخت کرنے کی تحریک دی ہے۔ اخوان کو اندازہ ہے کہ اب اخوان کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
اخوان نے 2011ء سے اب تک پانچ الیکشن جیتے ہیں۔ اخوان کی قیادت کو اپنی حمایت میں بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد کا اندازہ ہے۔ یہ صورتحال اخوان کے مخالف شاید ہضم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اخوان کو اندازہ ہے کہ کسی سمجھوتے اور نرمی کا مطلب عرب دنیا میں تحریک کو کمزور کرنا ہے۔ کئی عرب ملکوں میں اسلام پسندوں اور اخوان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ پوری عرب دنیا میں ہلچل مچی ہے۔ اخوان کے حامی اور مخالف اپنے اپنے مورچوں میں سرگرم ہیں۔ آج اخوان نازک موڑ پر ہیں۔ یہ ان کی بقاء کی جنگ ہے اور اخوان بڑی سختی کے ساتھ اس جنگ پر تیار ہیں۔ اب نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مظاہرہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ اخوان کی زندگی میں قربانیاں تو بہت ہیں لیکن بازاروں میں سیاسی ہنگامے اور مظاہرے پہلی بار ہیں۔
میں کئی بار مصر گیا ہوں کیونکہ یہ میرے خوابوں کا ملک ہے۔ یہاں مسلمانوں کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ یہاں کے اخبارات اشاعت اور معیار کے اعتبار سے ہم سے بہت آگے ہیں اور ملک سے باہر پوری عرب دنیا میں پڑھے جاتے ہیں۔ یہاں کے قہوہ خانوں میں نوبل انعام پانے والے ادیب بیٹھک جماتے ہیں۔ میں نے نجیب محفوظ کو نہیں دیکھا مگر خان خلیلی میں ان کا پسندیدہ قہوہ خانہ کئی بار دیکھا اور اس میں چائے پی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ مصر کی سرزمین ہزاروں برس پرانے تاریخی آثار سے بھری ہوئی ہے اور اب کچھ عرصہ سے مصر کے آثار قدیم سائنس کا ایک الگ شعبہ بن چکے ہیں اور قدیم مصری آثار کے سائنس دان الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہزاروں برس بوڑھے فرعون اپنے آج کے جانشینوں کو دیکھ کر شرماتے ہوں گے۔
فرعون اپنے ان اہراموں میں قید ہیں ان عجیب و غریب مقبروں میں کبھی ان کے کھانے پینے کا سامان اور خدمت گزاروں کے لیے غلام بھی رکھے گئے تھے جو اب سب اپنے آقائوں کی طرح پتھر بن چکے ہیں لیکن صرف ایک فرعون گویا زندہ ہے۔ اس کا چہرہ سب کے سامنے کھلا ہے اور آنکھیں جیسے دیکھ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک زندہ رہنے کا اذن دیا ہے۔ یہ فرعونِ موسیٰ ہے جو دریا میں غرق ہوا لیکن قدرت نے اسے عبرت بنا کر پانی سے باہر نکال کر محفوظ کر دیا اور یہ قیامت تک دنیا کے سامنے رہے گا۔ میں نے اسے قاہرہ کے عجائب خانے میں دیکھا ہے۔ اس کی ممی الگ رکھی ہے۔ میں نے عجائب خانے کے ایک کارکن سے ابھی بات نہیں کی تھی کہ اس نے اس کی ممی کی طرف اشارہ کر کے حقارت سے کہا وہ پڑا ہے۔
مجھے یاد آیا کہ ایک بار اس کے جسم کے کسی حصے میں پھپھوندی لگ گئی، علاج کے لیے پیرس لے جایا گیا۔ وہاں ایئرپورٹ پر اسے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور کسی زندہ بادشاہ کی طرح توپوں کی سلامی دی گئی۔ آج مصر کے عوام اسے سلامی دے رہے ہیں اور وہ اپنے ملک میں امن اور جمہوریت چاہتے ہیں، دیکھیں ان کا موسیٰ انھیں کب یہاں سے نکال کر لے جاتا ہے اور انھیں ظلم سے نجات دلاتا ہے کیونکہ وہی مصر وہی فلسطین اور یروشلم وہی موسیٰ کا نام لینے والے جانثار وہی امریکی جادوگر اور ان کے سانپ، وہی ایک فرعون سب کچھ وہی تاریخ کتنی بے رحم ہے۔

Saturday 24 August 2013

How many of you will support this decision?






LAHORE: 
A curriculum is being designed to create awareness about sexual and reproductive health rights.
The contents were shared on Friday with a section of teachers and officials of the Schools Education department.
The curriculum has been designed by Hayat Lifeline Campaign and targets adolescents. Topics discussed include puberty, reproduction, transmittable diseases and human rights.
The curriculum has been prepared on two levels.
Level one targets the 10 to 12-year-olds and is about self-awareness, self-esteem, feelings, human rights, body protection, nutrition and peer pressure.
Puberty will be addressed for children under ‘How I grow and change’.
Level two is designed for 13 to 15-year-olds.
Topics at this level include maternal health, awareness regarding HIV/AIDS and hepatitis, stigma, discrimination, addiction and advanced information regarding puberty, human rights and effective communication.
“Our focus has been on providing information on age-specific issues,” says Tariq Mahmood, a curriculum specialist on the project.
He says the curriculum is being designed as Life Skills Based Education (LBSE).
“LSBE is a global practice to promote learning and life skills for young people. It includes guidance regarding cognitive, emotional and social skills of a young individual,” he says.
Mahmood says topics like health, reproduction and life skills have formed a major component of the LSBE, which received global recognition in 1986 as part of the World Health Organisation’s (WHO) global conference.
“A serious lack of awareness has increased the communication gap between adults and the youth on such topics,” he says.
He says research in the area indicated that on topics relating to sexual and reproductive health, parents, teachers, peers and media were major sources of information for young people.
Mahmood says several topics relating to sexual awareness education have been incorporated in the draft curriculum.
He said this was in line with the National Education Policy of 2009.
Mahmood says globally, LSBE is taught as a subject with trained teachers and scores form a part of the child’s annual evaluation. He says this has not been the case in Pakistan.
“With the scheme of studies so compact, it is difficult to introduce it as a separate subject,” he says. “The best option is to continue teaching sexual health topics spread across various subjects.”
He says the evaluation through scores is essential.
School Education Department Deputy Secretary Aftab Ahmed says it is important to gauge benefits of such a curriculum over a longer period and at a larger scale.
“We have to determine the mode and the extent to which we can communicate such topics,” he says. He says a curriculum development authority is needed for such a project.
“Initially, we had reservations about interacting with the ulema because of the sensitivity of the topic,” says Omer Aftab, the chief executive of the campaign.
“We were amazed at the nature of the scholarly discussion on sexual health amongst the ulema,” he says.
Aftab says the curriculum would not introduce anything “un-Islamic.”
“There are provisions in our religious literature on sexual health,” he says.
He says the campaign has taken ulema from Barelvi, Deobandi and Shia sects on board.
“It is easier for our children to tackle situations once they have the required information,” says Raghuib Hussain Naeemi, the nazim at the Jamia Naeemia in Lahore.
He has organised two workshops at the Jamia on sexual health.
Published in The Express Tribune, August 24th, 2013.

Tuesday 20 August 2013

New Rates of Electricity

 
اسلام آ باد:  وزارت پانی و بجلی نے کراچی، کوئٹہ ،فیصل آباد، اسلام آباداورلاہورسمیت دیگرشہروں کیلیے بجلی کے نئے نرخوں کاشیڈول جاری کردیا۔
گھریلو صارفین کیلیے بجلی اوسطا 15 فیصدجبکہ صنعتوں کیلیے 56 فیصدمہنگی ہوجائے گی۔ وزارت پانی و بجلی حکام کے مطابق نرخوں کے نئے شیڈول کے مطابق 50 یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کیلیے بجلی کے نرخ 1 روپے 87 پیسے بڑھاکر2 روپے فی یونٹ کردیے گئے ہیں، اس کے علاوہ 101 سے 300 یونٹ ماہانہ بجلی خرچ کرنے والے گھریلو صارفین کیلیے نرخ 6 روپے 86 پیسے سے بڑھاکر8 روپے 11 پیسے کردیے گئے۔301 سے 700 یونٹس استعمال کرنے والوں کیلیے بجلی کے نرخ 11 روپے 8 پیسے سے بڑھاکر12 روپے 33 پیسے کردیے گئے ہیں۔
700 یونٹس سے زائدبجلی خرچ کرنے والے گھریلو صارفین کیلیے نرخ 13 روپے 82 پیسے سے بڑھاکر15 روپے 7 پیسے فی یونٹ کرنے کافیصلہ کیاگیا۔ اس کے علاوہ کمرشل صارفین کیلیے بجلی کے نرخ 13 روپے 52 پیسے سے بڑھ کر18 روپے فی یونٹ ہوگئے، جبکہ صنعتوںکیلیے بجلی کے نرخ 9 روپے 26 پیسے بڑھاکر14 روپے 50 پیسے فی یونٹ کردیے گئے۔

Monday 19 August 2013

Imran Khan vs Imran Khan - Do you agree?



تجربہ گواہ ہے کہ جوں جوں فرد اپنی ہستی کے ارتقائی منازل کو طے کرتا چلا جاتا ہے اور اپنے گرد و پیش جہاں رنگ و بو کا تجزیہ کرنے لگا ہے، ویسے ویسے وہ افسردہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے تجزیے سے زندگی کی خرفتگی اور درشتگی اس پر عیاں ہونے لگتی ہے اور انسان کے لیے (جو حقیقت سے زیادہ خوابوں میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے) اطمینان و خوشی کے امکانات مسدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ میرے نقطہ نظر سے کسی مذہبی رہنما کی نسبت کسی سیاسی رہنما کے لیے افراد کو اپنی طرف متوجہ کرلینا بھی اسی وجہ سے ہے کہ مذہب زندگی میں عمل کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرتا ہے اور بڑے سیدھے سبھاؤ زندگی کے مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے جب کہ سیاست یا سیاست دان زندگی کے گرد بکھرے ہوئے ان گنت مسائل کو اپنے وعدوں کی تشبیہات اور دعوؤں کے استعارات کی چمکدار جھالروں سے باندھ دیتا ہے۔ اور قوم یا افراد۔۔۔۔ تخیل کو حقیقت پر ترجیح دینے والی قوم دھیرے دھیرے اور خوشی خوشی سیاست کے سارے وعدوں کے طوق سلاسل کو پہن لیتی ہے۔
کچھ ایسا ہی پچھلے دو سال کے دوران پاکستان کے سیاسی افق پر بہت تیزی سے ابھرنے والی جماعت ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ اور اس کے قائد عمران خان کے معاملے میں پیش آیا۔ 17 سال قبل وجود میں آنے والی پی ٹی آئی کے قائد عمران خان سے کون واقف نہیں ہوگا۔ قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے ورلڈ کپ کی فتح، شوکت خانم میموریل اسپتال سمیت کئی ایک معتبر حوالوں سے ان کی شخصیت قبل از سیاست بھی پاکستان میںمعروف اور ہردلعزیز رہی ہے اور جب کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور اپنی سیاسی جماعت ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ کی بنیاد رکھی تو ملک بھر کے عوام نے اسے سیاست میں ایک اچھا اضافہ قرار دیا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی جماعت نے ان 17 سال میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے بلکہ یہ کہنا بھی کچھ غلط نہیں کہ زیادہ تر نشیب ہی دیکھے۔ لیکن عمران خان کے عزم و حوصلے نے بہرحال انھیں میدان سیاست میں برسر پیکار رکھا اور بالآخر پچھلے دو سال کے دوران انھیں اور ان کی جماعت کو بوجوہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ناکام ترین حکومت اور دوران حکومت انرجی بحران، مہنگائی، بدامنی عوامی سطح پر خاطر خواہ پذیرائی بھی مل گئی۔
الیکشن 2013 کے بعد ثابت بھی ہوگیا کہ خان صاحب اپنے دعوؤں میں اس قدر تو کامیاب نہیں رہے جس کا اظہار وہ میڈیا اور الیکشن مہم کے دوران کرتے دکھائی دیے لیکن خیبر پختونخوا میں  پی ٹی آئی کی شاندار کامیابی، پنجاب میں کئی اہم نشستوں پر کامیابی اور کراچی جیسے شہر میں بھی جو ایم کیو ایم کا گڑھ مانا جاتا ہے، پی ٹی آئی کے ووٹ بینک نے ثابت کردیا کہ عمران خان کے دعوے ایک حد تک درست بھی تھے۔ تب پھر مسئلہ کیا ہے؟ اور کیوں ہے؟
یہ جاننے کے لیے اگر قارئین اس تحریر کی چند ابتدائی سطور کا ازسر نو جائزہ لیں تو عقدہ حل ہوتا نظر آئے گا کیونکہ عمران خان قبل از الیکشن جس فتح کو اپنے بہت نزدیک دیکھ رہے تھے، جس ملک کا وزیراعظم بننے کا وہ تہیہ کرچکے تھے اور ان کی دانست میں ملک کے تمام تر نوجوان صرف ان کی جماعت کی حمایت کر رہے تھے اور بہ خیال خود ایک انقلاب بھی برپا کرچکے تھے، وہ سب کچھ الیکشن کے نتائج میں کہیں دور دراز بھی نظر نہیں آیا۔ اگرچہ خواب دیکھنے پر کسی انسانی دور میں کوئی پابندی عائد نہیں رہی، لیکن کوئی دور انسانی یہ بھی ثابت نہیں کرسکتا کہ اس کے دیکھے گئے خواب حقیقت کا روپ دھار گئے ہوں، گویا شکست، ہار، جیت، دکھ، خوشی، امید، مایوسی، زندگی ان سے مل کر ہی بنتی ہے جب کہ پی ٹی آئی کو ایک صوبے میں حکومت بھی ملی اور ملک بھر میں ووٹوں کی تعداد کو لے کر وہ دوسری بڑی جماعت بھی کہلائی لیکن 100 فیصد وہ سب کچھ نہیں ہو پایا جس کی عمران خان کو امید تھی۔ پھر بدقسمتی سے دوران الیکشن وہ ایک جلسے کے اسٹیج پر چڑھتے ہوئے گر گئے اور زخمی ہوگئے۔
لہٰذا وہ ہوا جو ہونا تھا۔ خان صاحب کی شخصیت میں فرسٹریشن بڑھنے لگی اور مایوسی فزوں تر ہوتی چلی گئی۔ ایک خوش کن خواب سے آنکھ کھلنے پر ان کا لب و لہجہ دن بدن تلخ و ترش ہوتا چلا گیا۔ لہٰذا الیکشن کے بعد ان کی جانب سے پہلے 24 پھر 4 انتخابی حلقوں میں انگوٹھے کے نشان کاؤنٹر فائل سے چیک کروانے کا مطالبہ سامنے آیا، جو ہنوز جاری ہے۔ لیکن جسے الیکشن کمیشن نے قبول نہیں کیا۔ ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ صدارتی الیکشن کا مرحلہ آگیا، جس میں اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی حلیف جماعتوں مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے ساتھ شکست کے مدنظر مختلف حیلے بہانے تراشنے شروع کردیے اور بالآخر  صدارتی الیکشن کی تاریخ میں تبدیلی پر الیکشن کا بائیکاٹ کردیا۔
لیکن بائیکاٹ سے قبل پی پی پی کے ایک وفد نے عمران خان سے بھی ملاقات کی اور انھیں بھی صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ پر اکسانے کی کوشش کی، جو سنتے ہیں کہ سابق جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مسلسل انکار کے باعث پوری نہیں ہوسکی، ورنہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما بائیکاٹ کرنے کے لیے رضامند ہوچکے تھے، اور بیرسٹر اعتزاز احسن کے دلائل کارگر رہے تھے لیکن ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان نے بعد از الیکشن ذرا دھیمی آواز میں الیکشن میں بقول ان کے ہونے والی دھاندلی کا ذمے دار الیکشن کمیشن کو قرار دیا ، رفتہ رفتہ وہ کھل کر میڈیا پر ٹاک شوز میں، اپنے انٹرویوز میں  چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو دھاندلی کا ذمے دار قرار دینے لگے اور حالیہ دنوں میں تو حد ہوگئی کہ جب عمران خان سوائے ان الزامات کے کسی اور موضوع پر بات ہی نہیں کرتے تھے۔ ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ (جو بہت حساس اور بنیادی ایشو پر بلائی جارہی ہے) خان صاحب نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کردیا کہ اس کانفرنس کا سرے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایسی اے پی سی پہلے بھی کئی بار بلائی جاچکی ہیں، جو بے نتیجہ رہیں۔
ہم سب پی ٹی آئی کو متبادل اور مستقبل کی قیادت کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ہم تسلیم کرچکے ہیں، ہم جان چکے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ آپ جیسا ایماندار، بے باک اور نڈر لیڈر اسمبلیوں میں ہمارے حقوق کی حفاظت کرے گا، قومی خزانے کی حفاظت کرے گا، حکومت وقت کو کسی من مانی سے باز رکھے گا۔ خیبر پختونخوا میں آپ کا اصلاحی پروگرام باقی صوبوں کے لیے ترقی کی ایک نئی سمت متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اسی لیے میں کہتا ہوں خان صاحب! کہ لوٹ آئیے، اسی عزم و ارادے کی جانب، اسی بردباری اور تحمل کی جانب اور اسی کپتان کی جانب جسے 5 سال کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، الزامات، اکھاڑ پچھاڑ، بے زار کن مظاہرے آپ کی شخصیت کو زیب نہیں دیتے۔ آپ کو تو اعتدال پسند ہونا ہے اور میری دعا ہے کہ اسی اعتدال پسندی کا مظاہرہ آپ ہر جگہ کریں۔عدلیہ کے وقار کا ہر صورت خیال رکھا جائے۔ جس کی آج ملک کو ضرورت ہے، قوم کو ضرورت ہے۔

Sunday 18 August 2013

Qudrat kay Signal by Javed Chaudhary

 
اسلام آباد کا ’’اغوا کار‘‘ سکندر پاکستانی معاشرے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت‘ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے آخری غیبی امداد تھا‘ یہ قدرت کی طرف سے ہمارا آخری ’’مدد گار‘‘ تھا اور ہم نے اگر اس مددگار کی مدد نہ لی تو شاید چوہدری نثار کو وزارت چلانے کے لیے لندن شفٹ ہونا پڑ جائے اور یہ ایجویئر روڈ کے کسی فلیٹ میں بیٹھ کر سکائپ کے ذریعے اسلام آباد پولیس کو احکامات جاری کریں لیکن اس کے لیے چوہدری صاحب کو پہلے کمپیوٹر سیکھنا ہو گا‘ سکندر غیبی امداد کیسے تھا؟یہ آپ اس واقعے سے جان لیں گے‘ اللہ کا کوئی بندہ سیلاب میں پھنس گیا‘ پانی اس کے گھر میں داخل ہو گیا‘ ہمسائے اس کی مدد کے لیے اس کے گھر پہنچ گئے مگربندے نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ’’ میرا مالک اللہ ہے‘ یہ مجھے بچا لے گا‘ تم لوگ میری فکر نہ کرو‘‘ ہمسائے اس کی منتیں کرتے رہے مگر وہ نہ مانا‘ وہ مایوس ہو کر چلے گئے‘ پانی گھر کی دوسری منزل تک پہنچ گیا‘ اللہ کا بندہ چھت پرچڑھ گیا۔
فوج کی ریسکیو ٹیم نے اسے دیکھا تو وہ کشتی لے کر پہنچ گئی مگر اس کا کہنا تھا ’’میرا مالک اللہ تعالیٰ ہے‘ یہ مجھے بچا لے گا‘ تم لوگ میری فکر نہ کرو‘‘ ریسکیو ورکر بھی اس کی منتیں کرتے رہے مگر وہ نہ مانا‘ اس دوران پانی کا نیا ریلا آ گیا‘ ریسکیو ورکرز کی کشتی ڈولنے لگی چنانچہ وہ واپس چلے گئے‘ وہ شخص ممٹی پر چڑھ کر بیٹھ گیا‘ محلے کے تین تیراک نوجوان جان خطرے میں ڈال کر اس تک پہنچے اور اس سے ہاتھ پکڑنے کی درخواست کی مگر وہ نہ مانا‘ وہ توکل میں ڈوبا ہوا شخص تھا‘ وہ کسی انسان کی مدد لینے کے لیے تیار نہیں تھا‘ تیراک بھی واپس چلے گئے‘ پانی کا شدید ریلا آیا‘ ممٹی بھی پانی میں ڈوب گئی‘ ممٹی پر انٹینا لگا تھا‘ اللہ کا وہ متوکل بندہ انٹینے کے ڈنڈے کے ساتھ چپک گیا اور آہستہ آہستہ اوپر تک پہنچ گیا‘ فوج کا ہیلی کاپٹر آیا‘ ہیلی کاپٹر سے رسا پھینکا گیا اور ریسکیو ورکر لائوڈ اسپیکر کے ذریعے اس سے رسا پکڑنے کی درخواست کرنے لگے مگر اس کا کہنا تھا‘ اللہ میرا مالک ہے اور وہی مجھے بچائے گا‘ اس دوران پانی کا آخری ریلا آیا اور اس شخص کو بہالے گیا۔
اس نے چند غوطے کھائے اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی‘ وہ سیدھا اللہ کے دربار میںپیش ہو گیا‘ اس نے اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا ’’یا باری تعالیٰ میں تمہارا متوکل بندہ تھا‘ میں نے تمہارے آسرے پر کسی فانی انسان کی مدد نہیں لی‘ مجھے یقین تھا تم مجھے بچا لو گے مگر تم نے میری کوئی مدد نہیں کی‘ میں مر گیا‘ لوگ اب تم پر توکل نہیں کیا کریں گے‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ اے بے وقوف انسان! تمہارے پاس ہمسائے کو کس نے بھیجا تھا‘ ریسکیو کی کشتی‘ تیراک لڑکے اور آخرمیں ہیلی کاپٹر تم تک کس نے پہنچایا تھا‘ ہم بار بار تمہاری مدد کرتے رہے لیکن شاید تم چاہتے تھے میں اورمیرے فرشتے خود وہاں پہنچ کر تمہیں اپنے ہاتھوں سے پانی سے نکالیں‘ یہ کیسے ممکن تھا؟ اے بے وقوف انسان! ہم اپنے بندوں کی مدد کے لیے بندے بھیجا کرتے ہیں‘ ہمارے یہ بندے ہمارے معجزے ہوتے ہیں مگر تم نے ہمارا کوئی معجزہ‘ کوئی بندہ اور کوئی مدد قبول ہی نہ کی اور ہم انکار کرنے والوں کو پسند نہیں کیا کرتے‘‘ وہ شخص خاموش ہو گیا۔
آپ اس واقعے کے بعد اگر 15 اگست 2013ء کو اسلام آباد میں ہونے والے سانحے کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کریں تو آپ تسلیم کریں گے‘ سکندر قدرت کا آخری ہیلی کاپٹر تھا‘ اس شخص نے دو رائفلوں کے ذریعے پورے ملک کو پانچ گھنٹے کے لیے پاگل کر دیا‘ یہ اسلحہ سمیت اسلام آباد پہنچا اور ریڈ زون کے سامنے کھڑے ہو کر پوری اسٹیٹ کی طاقت کو للکارتا رہا اور ہم جوہری طاقت یہ تماشا دیکھتے رہے‘ یہ شخص قدرت کا سگنل تھا‘قدرت نے اس کے ذریعے ہمیں یہ پیغام دیا‘ آپ کی سیکیورٹی بہت کمزور ہے‘ آپ کی پولیس‘ خفیہ ادارے اور حکومت اس قدر کمزور ہے کہ ایک نیم پاگل شخص دورائفلوں کے ذریعے پورے ملک کی مت مار سکتا ہے‘قدرت نے اس سے قبل ڈی آئی خان جیل‘ بنوں جیل‘ جی ایچ کیو پر حملے‘ مہران نیول بیس‘ کامرہ ائیر بیس پر دہشت گردانہ حملے‘ دو مئی کے واقعے‘ گورنر پنجاب کے قتل‘ شہباز تاثیر‘ علی حیدر گیلانی کے اغواء‘ مساجد اور جنازہ گاہوں پر حملوں اور شیعہ سنی فسادات کے ذریعے بھی ہمیں ہماری کمزوریاں سمجھا دی تھیں۔
قدرت نے ہمیں ہر زاویئے سے بتا دیا تھا ‘ آپ نااہل بھی ہیں‘ کمزور بھی اور نالائق بھی اور آپ اگر عزت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ ہنگامی بنیادوں پر اپنا سسٹم ٹھیک کر لیں‘ آپ اپنی سیکیورٹی پر توجہ دیں مگر ہم ہرواقعے کے بعد اپنا سر ریت میں چھپا لیتے تھے یا آنکھیں بند کر کے اللہ سے غیبی امداد کی درخواست کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ ’’ایک تھا سکندر اسلام آباد کے اندر‘‘ جیسا آخری سگنل آ گیا‘ قدرت نے آخری سائرن بجا دیا‘ سکندر کا رائفلوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچنا‘ بلیو ایریا کی مرکزی سڑک پر ہوائی فائرنگ کرنا اور پھر دنیا کے سامنے پانچ گھنٹے تک ہمارا تھیٹر چلنا‘یہ ثابت کرتا ہے ہم نا اہل بھی ہیں‘ نالائق بھی اور بے وقوف بھی‘ یہ ثابت کرتا ہے ہم وفاقی دارالحکومت تک کی حفاظت نہیں کر سکتے‘ ہمارے اداروں کے پاس مجرموں کو بے ہوش کرنے والی ’’سٹن گن‘‘ تک موجودنہیں اور اگر ہے تو بھی یہ کارآمد نہیں یا پھر یہ ہماری پولیس کو چلانا نہیں آتی‘ پولیس کے پاس ’’شارپ شوٹرز‘‘ بھی نہیں ہیں کیونکہ پولیس نے جب سکندر پر فائرنگ شروع کی تو یہ فائرنگ پوائنٹیڈ نہیں تھی۔
یہ اندھی فائرنگ تھی اور اس فائرنگ کی زد میں اس کے اپنے افسر اور اہلکار بھی آ گئے‘ پولیس زمرد خان اور نبیل گبول کو بھی مجرم کے پاس جانے سے نہیں روک سکی‘ یہ اس کا فون بھی بلاک نہیں کر سکی‘ ہماری حکومت کے پاس چینلز کی لائیو کوریج روکنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں تھا اور یہ بھی معلوم ہو گیا وزیر داخلہ چھٹی پر ہوں یا ان سے رابطہ ممکن نہ ہو تو ریاست معطل ہو جاتی ہے‘ یہ ایٹ دی اسپاٹ فیصلہ نہیں کر سکتی‘ دو مئی کے واقعے نے ثابت کر دیا ہمارے ملک میں اسامہ بن لادن چھائونی ایریا میں چھ سال چھپ کر بیٹھ سکتا ہے ‘ امریکی ہیلی کاپٹر افغانستان سے ایبٹ آباد پہنچ سکتے ہیں اور یہ آپریشن کر کے واپس جا سکتے ہیں اور ہمیں ان کی کانوں کان خبر نہیں ہوتی‘ مہران بیس کے 22 مئی 2011ء کے واقعے نے ثابت کر دیا چند دہشت گرد ہماری تمام فورسز کو 16 گھنٹے انگیج رکھ سکتے ہیں اور ہم ان سے اپنے اورین جہاز تک نہیں بچا سکتے۔
10 اکتوبر 2009ء کو جی ایچ کیو پر حملے نے ثابت کر دیا ہم اپنے فوجی ہیڈ کوارٹر کو بھی نہیں بچا سکتے اور ہم حملہ آوروں سے مذاکرات کے لیے ملک اسحاق کو جیل سے راولپنڈی لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ بنوں جیل‘ ڈی آئی خان جیل اور کوئٹہ پولیس لائینز کے واقعات نے ثابت کر دیا ہم اپنی جیلیں بچا سکتے ہیں اور نہ ہی پولیس لائینز اور 6 اگست 2013ء کو مچھ اور چلاس کے واقعات اور کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے قتل عام نے ثابت کر دیا‘ ہمارے ملک میں نفرتیں پنجابی بلوچ‘ سنی شیعہ اور طالبان بیورو کریسی دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہیں اور ہماری ریاست ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘ یہ واقعات محض واقعات نہیں ہیں‘ یہ قدرت کے سگنلز ہیں اور یہ سگنلز ہمیں فوری اور حتمی فیصلوں کا پیغام دے رہے ہیں‘ اب چوہدری نثار کی پریس کانفرنسوں یا دعوئوں سے کام نہیں چل سکے گا‘ آپ کو اب کام کرنا ہو گا اور کام بھی اسی وقت اسٹارٹ کرنا ہو گا‘ آپ اگر لیٹے ہیں تو بیٹھ جائیں‘ بیٹھے ہیں تو کھڑے ہو جائیں‘ اگر کھڑے ہیں تو چل پڑیں اور اگر چل رہے ہیں تو دوڑ پڑیں اور اگر دوڑ رہے ہیں تو سرپٹ بھاگیں۔
آپ پانچ بجے کے بعد غائب ہو کر ملک کا کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکیں گے‘ عوام آپ سے صرف تین مہینوں میں اکتا گئے ہیں‘ آپ نے اگر فوری طور پر اپنا قبلہ ٹھیک نہ کیا تو عوام چھ مہینے بعد سڑکوں پر آ جائیں گے اور یہ آپ کو اتنی رعایت بھی نہیں دیں گے جتنی انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو دی تھی اور رہ گئے زمرد خان‘ انھوں نے بہادری کا ثبوت دیا‘ یہ اگر سکندر پر نہ جھپٹتے تو یہ ڈرامہ اگلے دن تک جاری رہتا‘ زمرد خان کا اقدام قابل تعریف تھا مگر انھوں نے مجرم پر جھپٹ کر قوم کو نئی راہ بھی دکھا دی‘ عوام میں سے اب ہر شخص زمرد خان بننے کی کوشش کرے گا اور یہ جان سے بھی جائے گا اور پولیس فورس کا رہا سہا بھرم بھی توڑ دے گا‘ چوہدری نثار زمرد خان کے واقعے کو بھی قدرت کا سگنل سمجھیں اور یہ فوری طور پر قانون بنا دیں۔
ملک میں آئندہ جو بھی شخص پولیس کی لگائی ہوئی پٹی یا رسی پھلانگے گا یا یہ مجرم تک پہنچنے کی کوشش کرے گا وہ اسی وقت گرفتار کر لیا جائے گا اور اسے کم از کم سات سال قید با مشقت کی سزا سنا دی جائے گی‘ ہم نے اگر آج یہ نہ کیا تو کل کو ملک میں ہزاروں زمرد خان ہوں گے اور یہ زمرد خان ملک کو انارکی کی طرف لے جائیں گے۔ چوہدری صاحب بھی ایسے واقعات میں قوم کے سامنے آیا کریں اور زمرد خان بھی پولیس کی رسی سے باہر رہا کریں‘ زندگی کھیل نہیں اور اگر ہے بھی تو اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی‘ یہ ضروری نہیں آپ ہر بار گریں تو قدرت آپ کو دوبارہ اٹھنے کا موقع دے دے۔

Saturday 17 August 2013

Firun Ka Takhat aur Secular Aamriat


Siasat Danun Ka kardar

سید اسد اللہ
 
ملک کے حالات جس نہج پر جارہے ہیں وہ نہایت تشویشناک ہے۔ ہم سب کو مل کر ان مشکل حالات کا سامنا کرنا ہے لیکن ہم اب موجودہ دور میں سیاستدانوں کا جو ردعمل دیکھ رہے ہیں وہ نہایت افسوسناک ہے، کسی کو ملکی اور قومی معاملات کا ادراک نہیں بس منفی سیاست پر کاربند ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی، اداروں کے درمیان تصادم، سیاسی جماعتوں کا اپنے اپنے منشور پر عملدرآمد کرنے کے بجائے نان ایشوز پر الجھے ہوئے ہیں۔ کوئی الیکشن کمیشن پر تنقید کر رہا ہے تو کوئی معزز اداروں کے خلاف باتیں کر رہا ہے۔ حالانکہ صورت حال یعنی عوام کی بے بسی، مجبوری اور عدم توجہی کی طرف غور کرنے کے بجائے عوام کو حالات کے غیر یقینی اور بے اطمینانی کے راستے پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کے احترام کا تو خوب شور مچایا جارہا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔
حکمرانوں کی طرف سے دعوے کیے جارہے ہیں کہ ہم ہر ایک جماعت کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں اور سب کو اپنے اپنے مینڈیٹ کے مطابق سیاست چلانے کا حق حاصل ہے، کسی جماعت پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی، سب کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے پھر کیوں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کا رویہ اختیار کیا جارہا ہے؟ کوئی اس مسئلے پر غور کرنے، سوچنے، بہترین مفاہمتی راہ اختیار کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔ کوئی کسی کو ملک دشمن قرار دے رہا ہے تو کوئی دوسرے کو یہودی ایجنٹ ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور کوئی حب الوطنی کو ڈھونگ کا نام دے رہا ہے۔ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ خدارا! اپنی روشوں کو بدلو، ملکی و قومی مفادات کو ترجیح دو۔ ذاتی مفادات کی سیاست پہلے ہی ملک کی کشتی کو بھنور میں پھنسا چکی ہے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پچھلے کئی سال سے جو سیاست دیکھنے میں آرہی ہے کیا وہ ملکی و قومی مفادات کی سیاست کہلانے کی حقدار ہے؟ قطعی نہیں۔
اگر گزشتہ کئی سال سے ملکی و قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاست کی جاتی تو قوم کا یہ برا حال نہ ہوتا، سوائے اس کے کہ ملکی سلامتی اور قوم کے ارتقاء کی کوئی علامات نظر نہیں آرہی بلکہ ملک و قوم کی تنزلی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ ان ناخداؤں کو کون سمجھائے کہ ملک کے اندرونی اور بیرونی خطرات، خدشات و شبہات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، صرف اپنے اقتدار کی مسند کو مضبوط کرنے کی نہیں۔ ملک پہلے ہی اتنے گمبھیر مسائل میں گھرا ہوا ہے، ان کے حل کے لیے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی ہے، محض بیان بازیوں سے اور سبز باغ دکھا کر عوام کا دل بہلانے اور جھوٹی تسلیاں دے کر خاموش کرانے سے کام نہیں چلے گا۔ عمل کی ضرورت ہے۔ عوام کو کچھ ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ قوم کو کچھ ڈلیور کیا جائے گا تو تب ہی ملک کو خوشحالی نصیب ہوگی اور عوام بھی خوشحال ہوںِ گے۔ جب عوام کی طرف سے ردعمل آتا ہے تو اپنی مجبوریاں گنوانا شروع کردیتے ہیں، یہ کیا تماشا ہورہا ہے، سمجھ نہیں آتا۔ حکومت میں آنے کے لیے تو بڑے بڑے گر آزمائے جاتے ہیں، عوام کو جھوٹے وعدوں، یقین دہانیوں، اور جھوٹے دعوؤں سے بہلانے کا دور ختم ہوگیا۔
اب تو پریکٹسزم کا دور ہے۔ عوام کو کچھ کرکے دکھانے کا وقت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی روش تبدیل کی جائے اور عوام کو سیدھا راستہ دکھایا جائے۔ عوام کو اندھیرے میں رکھ کر اپنی بادشاہت قائم کرنے کا دور گزر گیا ہے اب اگر جمہوری نظام اور جمہوریت کو چلانا ہے، صحیح سمت میں لے جانا ہے تو ’’جمہوری نظام‘‘ کو بھی صحیح خطوط پر چلانا ہوگا۔ جمہوریت، جمہوریت مالا جپنے سے جمہوریت کی ریل پٹری پر قائم نہیں رہ سکتی۔ جمہوریت کے دعویدار ہو تو جمہوریت کو حقیقی معنوں میں عروج دو۔ جمہوری دور میں تو یہی ہوتا ہے کہ ’’عوام کی خدمت، ملک کی خوشحالی، ملک کی ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے کا عزم‘‘ یہی ہر ایک کے منشور کا حصہ ہونا چاہیے۔ ووٹ لیتے وقت تو اپنے اپنے منشور میں بڑی روشن خیالی اور عوام کی فلاح و بہبود کی شقیں رکھی جاتی ہیں جسے پڑھ کر عوام بھی خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور بلا خوف و خطر اپنے ووٹ کا استعمال ان کے حق میں کردیتے ہیں، بعدازاں انتخابات ان ہی کے منتخب نمائندے ان ہی کے ساتھ ہاتھ کر جاتے ہیں۔ کس قدر شرمناک رویہ ہوتا ہے سیاستدانوں کا۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ سیاست کیا ہے صرف جھوٹ کا پلندہ۔ سیاست میں سب کچھ جائز ہوتا ہے اس لیے کہ اگر صحیح خطوط پر سیاست کی جائے تو وہ نفع بخش کیسے ہوگی؟
اس میں تو خسارہ ہی خسارہ نظر آتا ہے اور فائدہ عوام کے حق میں جاتا ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے، بوئیں کانٹے اور امید کریں گندم کی۔ اب ایسے کام نہیں چلے گا، سیاست کرنی ہے تو ملکی و قومی مفادات کو ترجیح دے کر کرنا ہوگی۔ ورنہ ایسی سیاست تو عوام کو آمریت کی طرف لے جاتی ہے۔ عوام سیاستدانوں سے بیزاری کا اظہار کرکے افواج پاکستان کی طرف دیکھتی ہے۔ اس میں کوئی حیل و حجت نظر نہیں آتی ہے بلکہ یہ ایک فطری عمل ہوتا ہے۔ اس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاستدانوں کو اپنی سیاست کا رخ صحیح معنوں میں ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کی طرف موڑنا ہوگا۔ دکھائیں حلوہ اور مرغن غذا مگر جب کھلانے کا وقت آیا تو سوکھی روٹی سامنے رکھی جاتی ہے۔ عوام کی خدمت کے بجائے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو نتیجتاً انجام یہی ہوتا ہے کہ کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری، سفارش، رشوت جیسی لعنتیں جنم لیتی ہیں جو جمہوری نظام حکومت کو سخت ٹھیس پہنچاتی ہیں اور پورا معاشرہ بگڑ جاتا ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج دکھائی دیتا ہے۔ پھر جب حالات بے قابو ہوجاتے ہیں تو ملک دشمنی کا واویلا مچاکر طرح طرح کے حیلے بہانے بنائے جاتے ہیں۔ غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے خودسری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ کیا ایسی چالیں چلنے سے کہیں جمہوریت کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے؟
باتیں تو بہت کڑوی لگتی ہیں لیکن آپ خود بھی تو اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کو ’’کڑوی گولی‘‘ نگلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ عوام آج سے نہیں 66 سال سے کڑوی گولیاں کھا کھا کر ہی جی رہے ہیں اور ان کے لیے ’’کڑوی گولیاں‘‘ بھی بے اثر ہوگئی ہیں۔ کیا کیجیے ان سیاستدانوں کی سیاست کا، عوام کو ہی ان سب مشکلات کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ سیاستدان تو یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاتا ہے کہ کیا جائے یہ تمام مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔
خدارا! اب بھی وقت ہے، کچھ بگڑا نہیں، صحیح سوچ اور مثبت راستہ اختیار کرلیا جائے تو صاف و شفاف سیاستدان کہلائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرز عمل کو آگے بڑھایا جائے گا تو بہتری دور کی بات، تباہی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ میرا صائب مشورہ تمام سیاستدانوں خواہ وہ حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف یہی ہے کہ پرانی ڈگر پر سیاست چلانے کے بجائے نئے روشن خیال اور قومی جذبے کے ساتھ سیاست کرنی ہوگی۔ شخصیات تو شخصیات اب صوبوں سے صوبوں کے درمیان بھی محاذ آرائی کی سیاست کی جارہی ہے کیا یہ ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے، ہر گز نہیں۔ یہی آج میرے مضمون کا عنوان ہے ’’ہمارے سیاستدانوں کا کردار‘‘۔ کیا ان مندرجہ بالا حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو سیاستدانوں کا منفی کردار عیاں نہیں ہوتا؟ اگر کسی کی دل آزاری ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ لیکن حقائق سے چشم پوشی کی سیاست نے ہی تو ملک کو اس نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ ایک طرف دہشت گردوں کا راج ہے تو دوسری طرف بدکردار سیاستدانوں کا جھمیلا۔ کیا اسی طرح سے ملک وقوم کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر لے جایا جاسکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ ضروری ہے کہ تمام سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور اپنی روش بدلنا ہوگی۔ ورنہ ہر طرف اندھیروں کے بادل چھائے رہیں گے۔

Friday 16 August 2013

Agree with Javed Chahudhary

قوموں کی تباہی کی دوسری بڑی وجہ کرپشن ہوتی ہے‘ کرپشن اور غربت دونوں جڑواں بہنیں ہیں‘ دنیا میں جہاں کرپشن ہو گی وہاں غربت بھی ہو گی اور جہاں غربت ہوگی وہاں کرپشن بھی ہو گی‘ آپ اگر کسی معاشرے کو امیر بنانا چاہتے ہیں تو آپ وہاں سے کرپشن ختم کر دیں‘ وہاں سے غربت ختم ہو جائے گی‘ آپ اگر اسی طرح کسی معاشرے کو غریب بنانا چاہتے ہیں تو آپ وہاں کرپشن کا کلچر پروان چڑھا دیں‘ دنیا کی امیر ترین سوسائٹی بھکاری بن جائے گی‘ آپ روس کی مثال لے لیجیے‘ سوویت یونین کے دور میں روس دنیا کا واحد ملک تھا جس میں سو فیصد تعلیم ‘ سو فیصد روزگار‘ سو فیصد امن اور سو فیصد انصاف تھا‘ آپ کو پورے ملک میں کوئی بھکاری ملتا تھا اور نہ ہی عصمت فروش‘ آپ اس دور میں ایک روبل دیتے تھے اور آپ کو دو ڈالر ملتے تھے لیکن پھر وہاں کرپشن شروع ہو گئی‘ سوسائٹی کرپٹ ہوتی چلی گئی‘ یہاں تک کہ سوویت یونین کے تارپور ہل گئے اور اس کے بعد روس کی یہ حالت ہوگئی آپ ایک امریکی ڈالر دیتے تھے اور آپ کو اس کے بدلے میں پانچ ہزار روبل ملتے تھے۔
یورپ‘ امریکا‘ مشرق بعید‘ مشرق وسطیٰ اور بھارت کے قحبہ خانے روسی خواتین سے بھر گئے‘ آج بھی آپ کو یورپ کی ہر تیسری عصمت فروش عورت روسی ملے گی یا پھر اس کا تعلق سوویت یونین کے کسی سابق ملک سے ہو گا‘ بے روزگاری انتہا کو چھو رہی ہے‘ تعلیم کا یہ حال ہے روس نے جولائی 2013ء میں 700 اسکول بند کر دیے‘ جرائم کی حالت یہ ہے آج ریڈ مافیا دنیا کا سب سے بڑا مافیاہے‘ یہ سسلی اور کولمبیا کے مافیاز کو پیچھے چھوڑ چکا ہے‘ ریڈ مافیا نے ماسکو میں ’’ٹیلی فونک جسٹس سسٹم‘‘ متعارف کروا دیا ہے‘ آپ کسی بھی عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ کروانا چاہتے ہیں تو آپ ریڈ مافیا سے رابطہ کریں‘ یہ آپ سے رقم وصول کریں گے‘ آپ کے سامنے جج کو فون کریں گے‘ اسے ہدایت جاری کریں گے‘ اگر جج مان گیا تو درست ورنہ دوسری صورت میں آپ کے فیصلے سے قبل جج دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔
اس صورتحال کی وجہ سے روسی امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں‘ ماسکو اس وقت دنیا کے ارب پتیوں کی جنت کہلاتا ہے‘ دنیا کے 96 ارب پتی اس وقت روس یا ماسکو میں ہیں جب کہ دوسری طرف غریب اس قدر غریب ہو رہا ہے کہ اسکول اور کالج کی بچیاں دوران تعلیم عصمت فروش بن جاتی ہیں‘ دنیا کی ستر فیصد ’’پورنو گرافکس سائیٹس‘‘ روس سے اسٹارٹ ہوتی ہیں‘ آپ کو ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں سوویت یونین کے سابق فوجی پوری یونیفارم میں میڈلز کے ساتھ بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں‘ کرپشن کی حالت یہ ہے صدر پیوٹن سمیت نوے فیصد ارکان اسمبلی سیاست کے ساتھ ساتھ کاروبار کر رہے ہیں اور روس کے ہر چھوٹے بڑے ٹھیکے میں صدر پیوٹن یا اس کی فیملی کا حصہ ہوتا ہے۔
آپ اگر تھوڑا سا ماضی میں چلے جائیں تو آپ کو نائیجیریا کے جنرل سانی اباچہ‘ زائرے کے صدر موبوتو‘ انڈونیشیا کے صدر سوہارتو‘ فلپائن کے مارکوس اور ان کی کرپٹ بیگم املیڈا مارکوس اور بھارت کی مایاوتی‘جے للیتا اور لالو پرشاد جیسے کرپشن کے ’’روشن‘‘ ستارے دکھائی دیں گے‘ جنرل سانی اباچہ کو ایک دور میں دنیا کے کرپٹ ترین سربراہ مملکت کااعزاز حاصل تھا‘ ان کی ذاتی دولت چھ ارب ڈالر سے زائد تھی‘ یہ پانچ سو جائیدادوں کے مالک تھے ‘ یہ بچوں کی ویکسین تک سے 88 ملین ڈالرلیتے تھے‘ جنرل اباچہ نے ذاتی کمپنی بنائی‘ حکومت سے ویکسین کے لیے 111 ملین ڈالر وصول کیے‘ ذاتی کمپنی کے ذریعے 23 ملین ڈالر کی ویکسین فراہم کی اور 88 ملین ڈالر جیب میں ڈال لیے‘ یہ پوری پوری رات داشتائوں میں بھی گھرے رہتے تھے‘ زائرے کے صدر موبوتو کو ’’مین آف ٹین بلین ڈالر‘‘ کہا جاتا تھا‘ یہ زائرے سے گزرنے والی ہوائوں تک سے اپنا حصہ وصول کرتے تھے‘ فلپائن کے مارکوس اور ان کی بیگم املیڈا کرپشن کے شہنشاہ تھے۔
املیڈا مہنگے جوتے خریدنے کے خبط میں مبتلا تھی‘ احتساب کے دوران اس کے گھر سے چار ہزار جوتے برآمد ہوئے ‘ یہ جوتے آج بھی عجائب گھر میں رکھے ہوئے ہیں‘ انڈونیشیا کے صدر سوہارتو کی کرپشن الف لیلوی داستان ہے‘ صدر سوہارتو کے تین بیٹے‘ تین بیٹیاں‘ دو پوتے اور ایک سوتیلا بھائی دس سال تک انڈونیشیا کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے‘ سوہارتو خاندان 1250 کمپنیوں میں حصے دار تھا اور اس کے اثاثے 25 ارب ڈالر کے برابر تھے‘ آپ حد ملاحظہ کریں انڈونیشیا کا آئل بزنس صدر سوہارتو کی داشتائوں نے آپس میں تقسیم کر رکھا تھا‘ بھارت کی مایا وتی‘ جے للیتا اور لالوپرشاد بھی کیا خوب لوگ ہیں‘ جے للیتا ایکٹریس تھی‘ چار مرتبہ تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ منتخب ہوئی ‘ 1997ئمیں اس کے گھر پر چھاپا پڑا تو اس کے گھر سے 28 کلو جیولری‘ 91 قیمتی گھڑیاں‘ ساڑھے دس ہزار ساڑیاں اور ساڑھے سات سو جوتے برآمد ہوئے‘مایا وتی دلت قوم کی غریب خاتون تھی۔
یہ بھی چار مرتبہ اتر پردیش کی وزیراعلیٰ بنی اور اس نے صرف پارٹی چندے کی مد میں اتنی رقم جمع کر لی کہ اس نے ساڑھے 26 کروڑ روپے ٹیکس ادا کیا‘ یہ ٹیکس بھارت کے امیر ترین بزنس مین مکیش امبانی کے ادا کردہ ٹیکس سے بھی زیادہ تھا‘ رہ گیا بہار کا لالو پرشاد تو اس کے بارے میں لطیفہ مشہور تھا‘ جاپانیوں نے لالوپرشاد سے کہا آپ بہار ہمارے حوالے کر دیں ہم اسے چھ ماہ میں جاپان بنا دیں گے‘ لالو پرشاد نے جواب میں کہا‘ آپ جاپان مجھے دے دیں میں اسے چھ ماہ میں بہار بنا دوں گا اور آپ اس کے بعد پاکستان کی مثال لیجیے‘ پاکستان اس وقت کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 34 ویں نمبر پر ہے‘ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر روز 7 ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں‘ یہ دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جس کے صدر‘ سابق وزیراعظم‘ کابینہ کے وزراء‘ وزراء اعلیٰ اور گورنرز تک پر کرپشن کے الزامات ہیں‘ صدر آصف علی زرداری کے خلاف سپریم کورٹ تک حکم جاری کر چکی ہے۔
دنیا میں کرپش صرف بالائی طبقے تک محدود نہیں رہتی‘ حکمران جب کرپٹ ہوتے ہیں تو اس کا جراثیمی اثر چند دنوں میں انتہائی نچلے طبقوں تک پہنچ جاتا ہے‘ آپ اگر ایوان اقتدار میں چور بٹھا دیں گے تو آپ عوام کو ڈاکو بننے سے نہیں روک سکیں گے‘ اگر صدر پیوٹن کرپشن کرے گا تو پھر ماسکو شہر میں ریڈ مافیا ضرور بنے گا اور یہ مافیا ججوں کو ٹیلی فون کر کے مرضی کے فیصلے بھی کروائے گا‘ آپ اگر معاشرے کو کرپشن کے گند سے نکالنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو مچھلی کا سر صاف کرنا ہوگا‘ معاشرہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا‘ ہم اس سلسلے میں چین کی مثال لے سکتے ہیں‘ آج سے 20 سال پہلے چین نے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا‘ چین نے موت کو کرپشن کی سزا بنا دیا اور اس کے بعد سیاسی نظام کو کرپشن سے پاک کرنا شروع کر دیا‘ چینی اس معاملے میں کس قدر سخت ہیں‘ آپ اس کا اندازہ چند مثالوں سے لگا لیجیے‘ وائس ایڈمرل وینگ شوئی صدر جیانگ زی من کے انتہائی قریبی دوست تھے۔
پولیس نے ان کے گھر ریڈ کیا اور ان کے فریج‘ واشنگ مشین اور مائیکرو ویو سے 20 ملین ڈالر برآمد کر لیے‘ صدر کو معلوم ہوا تو اس نے خود اپنے دوست کی موت کے پروانے پر دستخط کیے‘ چین نے کمیونسٹ پارٹی کے سات لاکھ ارکان کا احتساب کرایا‘ ڈیڑھ لاکھ لوگ کرپٹ پائے گئے‘ یہ سب لوگ سیاست سے فارغ کر دیے گئے‘ ان میں سے ایک لاکھ لوگوں کو سزا بھی ہوئی‘ بینک آف چائنہ کا صدر کرپشن میں ملوث پایا گیا‘ اسے گولی مار دی گئی‘ شنگھائی کے میئر اور ڈپٹی میئر نے رشوت لی‘ دونوں کو سزائے موت ہوئی اور بیجنگ کے وائس میئر پر الزام لگا اسے بھی گولی مار دی گئی‘ چین نے سیاستدانوں کے بعد ایک لاکھ 47 ہزار سرکاری اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کروائیں اور جو افسر کرپٹ ثابت ہوئے ان کو گولی مار دی گئی‘ چار ہزار کرپٹ سرکاری افسر چین سے فرار ہو گئے‘ چین اب ان کا پیچھا کر رہا ہے‘ احتساب کا یہ عمل تھا جس نے آج چین کو دنیا کی معاشی سپر پاور بنا دیا‘ آج اگر چین امریکا سے سے اپنا سرمایہ نکال لے تو امریکا پندرہ دن میں دیوالیہ ہو جائے گا۔
ہم نے بھی اندرونی اور بیرونی تنازعوں کے بعد معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کا فیصلہ کرنا ہے اور یہ کام ریاست کے سر یعنی حکمرانوں سے ہو گا‘ ہم اگر ایوان اقتدار‘ پارلیمنٹ ہائوس اور سیاسی جماعتوں کو کرپشن سے پاک نہیں کریں گے‘ وہاں سے اقرباء پروری اور خاندان غلاماں کی سوچ  صاف نہیں کریں گے تو ملک ترقی نہیں کر سکے گا‘ہمارے ملک میں کرپشن اس انتہا کو چھو رہی ہے جس میں مسجد کے لوٹوں اور خیراتی کولر کے گلاسوں تک کو زنجیر سے باندھنا پڑ رہا ہے چنانچہ اگر میاں نواز شریف صدر زرداری کے سوئس اکائونٹس سے رقم نہ نکلوا سکے یا یہ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی سے کرپشن نہ اگلوا سکے اور یہ جمہوریت کے نام پر خاموش رہے تو پھر یہ اپنے خاندان‘ اپنے دوستوں اور اپنے پرانے ساتھیوں کا ہاتھ بھی نہیں روک سکیں گے اور اگر ایسا ہو گیا‘ اگر ہم کرپشن کو برداشت کر گئے تو پھر اس ملک کے ہر شہر میں ریڈ مافیاز بن جائیں گے اور ہر بڑے شخص کا صاحبزادہ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کی طرح اغواء کاروں کے نرغے میں ہو گا۔
ہم نے روس بننا ہے یا چین ہم نے آج کے دن یہ فیصلہ بھی کرنا ہے اور یہ فیصلہ بھی میاں نواز شریف کریں گے

Excellent Service by MTMIS Dept Punjab

Punjab Excise and Taxation department has initiated a mobile SMS service for collecting information related to your vehicle reports The Express Tribune.
Mechanism:
Through this SMS service, all sorts of information related to one’s vehicle can be collected by sending the registration number on 7080. The service will cost Rs1.40 per SMS.
Details:
This project was started by the Punjab government during the previous rule, which was delayed. However it has been completed now.
Information related to token tax, income tax and other taxes that were paid during car’s registration can be collected via the SMS service along with other details, such as the owner’s name and who was it transferred to.
This service would be helpful to the excise taxation team in verifying who has paid the tax and who hasn’t, right there and then. Furthermore, it will make it easy for the car owners to pay the tax to the excise team right there and collect a token. The car owner will later receive an SMS validating the payment and the detail about the excise tax officer, area and payment.

Thursday 15 August 2013

Really feeling very sorry after reading this by Jasmine Manzoor

                    "TRUTH" Behind My Silence !

" Bol kay Lab azad hain Terey "

My silence should not be looked upon as my weakness ! My truth should be judged by my viewers and many of those who have eagerly waited to hear the "The truth "that lead to my resignation from Samaa after 4 years. Long hard four years of work , when I think back it seems like a  journey of a life time.  

My father always said " Don't speak too much truth its not worth it" in this male dominated society. I always laughed and in my 15 years of journalistic career it seems he was right. He passed away two years ago fearing everyday for my life. The city I love the most was burning everyday , and everyday someone I did not know died in target killing. 

So I became  the voice of  the people but now I am unheard .I tried protecting the rights of the Pakistanis but now my rights are being violated . I fearlessly talked about the better future of my fellow citizens but my future has been compromised. I talked against  the ruthless target killing in Karachi but now I am on the hit list of target killers”
World can be difficult life unpredictable but be a woman and to be an anchor and journalist life is threateningly violent in Pakistan and specially in Karachi. 

I am in self imposed exile due to serious threats from unknown target killers.The security agencies have asked me to do so. How strange I cant move freely in my own Home land ! Why ? When will this mayhem stop ? how do I celebrate the independence day ? Are we independent ? These questions haunt me everyday.

 “I have spent 15 years a journalist and have been doing current affairs shows on private news TV channels of Pakistan but this is the first time , according to law enforcement agencies, I and my family are under serious life threats” Hunt and target a woman." Not only will this make international headlines but will also tell the world that we are hostage to handful of terrorists these terrorists  control our destinies. .

“ This actually started on 11th May 2013 when Pakistan was witnessing General Elections 2013 and voting for  political transaction from one democratic government to another was taking place. As a journalist and host of news channel, I was covering voting process around Pakistan via special election transmission. On that day, I witnessed that, huge numbers of people came out to cast their votes which was not seen in the past. I was jubilant excited and praying "God let there be a change let the Pakistanis decide for a new beginning ".

My excitement  turned into my nightmare.   I decided to cast  my vote along with my old mother and my brother. I went to my polling constituency called NA 250 (DHA girls college polling station) and there I saw crowds of people huge numbers hundreds of excited women , youngsters , girls and boys. Now it was around 2 o clock  in the afternoon the  polling had started very late in fact the ballot boxes were brought by the candidate himself in custody of rangers. I started talking to the people they were tired and hot and by now getting impatient as the line was huge but the voting was very slow.  As a journalist, I entered the polling station forcibly to know why polling was so delayed  and slow? As I went inside I saw total ciaos. There was hardly any staff  and people were pushing and shoving puzzled what to do.I started surveying the rooms polling was going on in a few rooms  but at a snail's pace and the staff was scared. I asked them why was there so much less staff  and why were they taking so much time ?They said dont ask us ,ask the presiding officer who was no where to be seen. I saw one room which was locked from inside, I tried opening it because my instinct said something was wrong as I pushed the crowd pushed with me and we manged to get inside and there I witnessed that polling officer  hostage and a few young men stamping fake votes for a political party, Mutahida Qaumi Moment (MQM). I questioned them about rigging but they misbehaved with me and started to run away . By this time many voters had entered behind me and there started a fight I tried stopping them yelling that  I am a journalist but the fight got worse and the boys stamping the ballots ran pushing and ripping my shirt and in this total madness my old mother fell. I barely managed to get out and tried yelling for help from the two rangers standing on guard but no one came to help. They just looked the other way and went out . A few men helped me my mother and a few other women get out .Meanwhile, I asked my channel Samaa to take my audio beeper for  that breaking news and in that beeper I said whatever I saw at the polling station in detail. I asked for the Sindh election commissioner to intervene and thus began the full fledged words of war between two political parties MQM and PTI which led to protests all around Karachi by night.

 “On the same evening, I went to my news channel to do my live election transmission and tried to invite politicians from MQM to discuss the events of the day but my office management stopped me. I was told due to my audio beeper they (MQM) Mutahida Qaumi Movement were very angry. I was asked again and again not to raise this issue from my management and to divert the elections transmission show to the other parts of Pakistan . During my program transmission I was very upset for not being able to speak the truth . The story that really mattered to me now was NA 250. Later that night  Mr. Altaf Hussain, the founder and chairman of Mutahida Qaumi Moment (MQM) made very incited telephonic speeches from London in which he talked about killing people and abused the journalists and anchors calling them barking dogs. By now the entire media of Pakistan had focused on Karachi.

The next few days I did  shows on Mr. Altaf Hussain"s incited speeches,despite my channel's go soft policy on MQM . I invited politicians from both the political parties. Heated debates took place and Mr. Altaf Hussain;s speeches were highly criticized by everyone in Pakistan and abroad.

After my last show of the week  Governor Sindh, Mr. Ishrat Ul Ibad and senior leaders of MQM spoke gently with me about those shows . The same night  Mr. Altaf Hussain apologized for the comments he had made about journalists and anchors.  I liked that gesture and appreciated it publicly. Then I left  to Saudi Arabia for three days to offer Umrah (The Muslims religious obligation to go to Saudi Arabia and perform prayer) when I came back, the world became different for me” .

“When I came back, I saw huge deployment of the Police and Rangers outside my home, I was shocked the first thought was Oh God  robbery I rushed inside and met a scared housekeeper. Thank God no robbery what then ? As soon as I opened my cell phone the first call I received was by SP of my area. He said only one sentence " Madam where were you Allah has saved you and your family please don't leave your house I am on my way. " The Police and intelligence agencies men came to my house shortly.  I was told by them that, "they intercepted telephone calls detailing that  four target killers had been assigned to target me or my family and made to look like robbery at gun point." This was shocking I just couldn't believe it . According to the intelligence reports the target killers had completed their home work to kill me or any member of my family. In official terms their Rekee was complete. The senior officials told me this was no joke but a clear present and serious threat to my life. They said if you were here, you would have been killed by now. I asked them who wants me dead what have I done ? According to all the intelligence agencies reports including CID, IB Intelligent Bureau, ISI Inter services Intelligence all terrorists belonged to the largest  ethnic  political party of Karachi Mutahida Qaumi Movement (MQM) these reports were sent to the Government of Pakistan on all levels. Before this incident, I have never received any direct threat from MQM  let me clear this and put it on record. Every thing I have written is exactly what has been told to me by the Intelligence agencies of Pakistan.

My immediate response was to do two things I sent my brother back to Canada the same night I never felt so relieved before in my life as I saw his aircraft fly into the air. And the second thing I did was move my old mother to an undisclosed location in Pakistan.  And then I cried and I cried so much I did not know whether it was pain or tears of relief that my family was safe.“
The next day I went to work moving under heavy security.I immediately tried to contact Mr. Altaf Hussain to tell him what the agencies were telling me, but London office of MQM didn’t respond, though in past Mr. Altaf Hussain use to be in touch with me very often”. Finally I got through to Mr. Nusrat Nadeem member Rabitta committee London I told him everything he listened to me patiently and denied everything. He sent Mr. Wasaay Jalil and Mr.Saif Abbas senior members  of MQM to my house to reassure me that nothing of the above was the truth and that the agencies were lying . I was unsure who to believe ? My saviors had become my enemies ! Were the agencies pitting me against MQM to play their proxy wars ? Or was this whole thing the truth ? By now my mother was pushing me to resign .

“I requested help from my news channel (Samaa TV), from the government and from law enforcement agencies but no one was ready to seriously resolve this issue I was told to move in a bullet proof car ! To keep a low profile or rather better move from Karachi . How can I a journalist move in a bullet proof car ? Where would I get a car like that from ? But no one was there to help me. What  did I do which compelled any  political party to send target killers for me? I was doing my job honestly.

 “I was invited by Prime Minister Nawaz Sharif in energy conference and there without taking the name of any political party, I informed Mr. Nawaz Sharif about the potential threats of target killing at me and my family and that was the triggering point for me and I broke down and sobbed for Karachi. The entire Media was sitting there  but the PM had nothing to say he only expressed sorrow at my dilemma . Besides that, I met and informed Interior Federal Minister, Choudhary Nisar and Director General, Inter Services Intelligence (ISI) but my all efforts went into vein” I still seek the truth ? I resigned that day from Samaa as I was dumb founded at their indifference to this whole situation they did not even have a word of sympathy let alone provide any security or help resolve this matter for me.

 “I would never leave my homeland and I would never leave my profession, no matter if gangs kill me. Furthermore, I will write a book regarding my experiences as a female Journalist which will truly reveal the  real persona of political entities and true colors of the  establishment of Pakistan.I am not leaving my country and profession, I lived as a journalist and will die as a journalist. I may not live but my writings will surely live and will keep enlightening people”

 “According to UNESCO, After Mexico, Pakistan is second dangerous place for Journalists. Previously, institutions used to threaten Journalists but now political parties and different gangs are involved in the killings and harassing journalists”
I salute the journalists and anchors who raised their voice for me. And above all I salute the people of Pakistan and my viewers who have been a beacon of hope in these testing times for me and my team members  Ahmed Khan ,  Aijaz Khoker and Zeeshan  of  the program "Tonight with Jasmeen "who have all resigned with me.
I am still seeking the truth.

According to committee for protecting Journalists, 52 journalists have been killed since 1992 in Pakistan http://www.cpj.org/killed/asia/pakistan/.  and in 2012, seven journalists gave their lives during performing their Job http://www.cpj.org/killed/2012/. Journalists of Karachi hopes that, the list of deceased journalists would not increase in future.

‘Corporations are people’ by Anjum Riaz

Millionaire Mitt Romney lost the White House to President Obama for inane comments like ‘corporations are people, my friend’ when asked why he was soft on raising taxes on American conglomerates. Millionaire Nawaz Sharif has the same business mindset. Additionally, he wants ‘people’ of his ilk to head public sector corporations. Talking shop and conducting business with his own kind comes easy to him. Even his buddy and host in London, cash-and-carry stores magnate Mohammad Sarwar, can chip in with fiduciary advice while lodged at the Governor’s House, Lahore.

Sarwar, 60, brings the right credentials to the table. As a British MP, he’s the first Pakistani to take his oath on the Holy Quran in the 1000-year old history of the British parliament. While that may be so, what else is new? Well, he’s promised to create a business-friendly environment and to boost trade and industry in his newly adopted country, Pakistan.

Wait… I hear, Shaukat Tareen has been “entrusted with the responsibility of selection of board members of state-owned entities (SOEs)”, whispers a person who keeps his finger on the pulse of business.

Nawaz Sharif’s brew of ‘selectors’ thickens. He has a penchant for collecting billionaires and millionaires. Like him, their bulk business operations are not in Pakistan but abroad. And so are their bank accounts and immovable assets. With a billionaire (Mohammad Mansha), millionaire (Mohammad Sarwar), and straight shooter plus a millionaire Shaukat Tareen, there will be a traffic jam of master chefs in the royal kitchen.

Nawaz has already appointed three ‘cooks’ who have begun stirring the pot silently from behind the curtain. These three invisible men, never seen, never heard of since their selection to this so-called commission, are retired bureaucrat Abdul Rauf Chaudhry, technocrat Shams Kassim-Lakha and ex-World Bank economist Dr Ejaz Nabi. Jumping into this cauldron of the gifted will be heavyweight Tareen. He’ll splash, he’ll squish, and he’ll squash.

As Zardari’s finance minister, Shaukat Tareen threw in the towel when he could no longer tolerate the heists conducted by the then prime minister Gilani. He quit to shore up his own bank.

The World Bank is raising red flags as it watches Nawaz Sharif appoint politicians, industrialists and bureaucrats on the board of directors of state-owned entities. In its latest ‘Policy Note’ on Pakistan, it urges the government to stop this practice of ‘obliging’ people, arguing that such appointments are against principles of good corporate governance. It also cautions the government against including current civil servants or ministers on the boards. “Anything less – such as patronage or representation – diminishes the skills on the board.”

Pakistan owns over a hundred public sector enterprises that contribute a tenth in the nation’s economy and make a third of stock market capitalisation, states the World Bank. Oddly enough, Pakistan does not have an SOE (state-owned enterprise) Act to govern these entities or even SOE ownership policies. The government must quickly enact a law that includes accountability for SOEs. Those failing to meet the target should not be given extra funds, it advises.

But Nawaz Sharif appears to be in a brain freeze of sorts. Currently he’s playing dumb charades without appointing experts. Furthermore, he’s putting the cart before the horse, so to say. And the person to point out this anomaly is Zaffar Khan. As past chairman of PIA, Karachi Stock Exchange, and Engro, his opinion is weighty.

“It seems the government plans to select the CEOs and appoint them in PSEs [public sector enterprises]” writes Zaffar Khan, in a letter to the editor in an English newspaper. “This is not right. Hiring or firing the CEO should be the exclusive prerogative of the board of directors of each enterprise. CEOs selected by the government are not likely to take their boards seriously. This process will undermine the authority and accountability of boards.”

Another voice of reason comes from Moin Fudda, a well-known name in the world of business. He is a member of the taskforce that drafted the rules on PSE corporate governance as recently as March 2013. According to him the rules clearly “stipulate that the companies’ boards appoint professional managers as CEOs, thus reducing government interference in their operations.”

But the government appears to be quashing these rules. It wants to be the competent authority for the appointment of the 100 plus CEOs. Hence it has appointed the obscure three-man commission, whose work scope, as mentioned above, is being kept undercover.

Why else would the advertisements for CEOs in the national press sound so non-serious? Did some dim-witted clerk at the PM Secretariat write them? How is it possible that the job requirements for all 100 CEO positions ask for identical qualifications? For example, the managing director of OGDCL, Pakistan’s flagship company for oil and gas exploration requires candidates to have only 15 years of experience. “In OGDCL alone, 2,000 people qualify for this position given their 15 years in service,” an insider tells me. “It’s likely all will apply for the MD position. So, will this commission be interviewing all the 2000?”

He fears that Nawaz Sharif and his ministers like Khaqan Abbasi, Ahsan Iqbal, and Khawaja Asif lack “resolve, commitment and decision-making powers.” They’ll continue to drag their feet and “suddenly it will be 2018 and it’ll be time for them to go home.

Here’s some more ‘news of the weird’ as it should be called about the absurd way in which appointments to top SOEs are being handled. According to media reports, “A foreign airhostess is among those who have applied for the post of managing director of the airline [PIA].”Apart from this go-getting dame, “foreigners are among about 100 people who have applied for the posts of managing director and chairman of the Pakistan International Airlines (PIA),” according to PIA sources. Didn’t the Supreme Court order ‘no foreign nationals’ in sensitive jobs?

And guess what? The selection process is spinning like crazy. Candidates, including the airhostess, I assume, are lining up for interviews before the three-member commission presided over by messrs Rauf Chaudhry, Shams Lakha and Ejaz Nabi. Judging by the flash mob turning up for each job advertised, the process must resemble speed dating where series of short conversations are conducted to find suitable candidates.

“This is an exercise in gauzy self-absorption, the commission is a mere echo chamber of the government,” comments a corporate expert. “The appointments have already been decided by Nawaz and his kitchen cabinet. For example for the post of PIA head, Shahid Aslam, the man who served as MD of the national carrier during Nawaz Sharif`s last government, is being billed as a big ticket.”

In an email message, someone closely associated with PIA in the past but who does not want to be named, warns that the government needs to quickly get its act together. The proposed methodology of selecting a chairman cum CEO may yet take weeks if not more. “Can we afford to risk passenger safety and continued financial bleeding in this period of reduced accountability ie a disabled board and no CEO?” he asks. “PIA is too politicised and far too many people want to call the shots. We must get out of this phase. It requires the government to get tough, quickly, place competent leadership and empower it to undertake courageous restructuring and then to privatise the airline,” he advises. “Or else the wheels will spin without forward movement.”

The corporate experts have spoken. The preachy government should now stop speechifying and doodling around the decision-making process by mollycoddling its party loyalists found in droves among a retired crop of bureaucrats, bankers and businessmen.

Email: anjumniaz@rocketmail.com

Wednesday 14 August 2013

Google Pakistan goes green


صبح آزادی مبارک


نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے 
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے 
نظر چرا کے چلے ، جسم و جان بچا کے چلے 
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد 

کہ سنگ و خشت ہیں مقید اور سگ آزاد

مبارک ہو ایک اور صبح آزادی 
وہی داغ داغ اجالا، وہی خون آلود شب و روز 
اور وہی اہل دل 
مبارک ہو صبح آزادی